Bhaati Gate Lahore I Home of Singer Muhammad Rafi & Famed Poet Allama Iqbal I Vlog I Gilani Logs
Gilani Logs Gilani Logs
83.1K subscribers
79,024 views
1.2K

 Published On Jul 12, 2022

#bhaatigate #lahore #muhammadrafi
Bhaati Gate Lahore I Home of Singer Muhammad Rafi & Famed Poet Allama Iqbal I Vlog I Gilani Logs

Videography: Muhammad Tanzeem Baath

عام طور پر بھاٹی دروازہ کو لاہور کا ساتواں دروازہ کہتے ہیں
کہا جاتا ہے کہ 1002 میں جب محمود غزنوی نے راجہ جے پال کو شکست دی، تو یہاں موجود دروازے کو راجپوت قبیلے بھاٹ یا بھٹی کا نام دیا گیا، جو اس کے جانشین ایاز کے دور میں آ کر یہاں آباد ہو گئی تھی۔ مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر نے اپنے عہد میں اسے دوبارہ تعمیر کرایا۔ یہ شہر کی دیوار کے مغربی سمت میں واقع ہے اور یہ اپنے مخصوص لاہوری کھانوں کی بنا پر جانا جاتا ہے اور یہاں چوبیس گھنٹے چٹ پٹے کھانوں کے شوقین افراد کی بھر مار رہتی ہے۔
فن تعمیر کے حوالے سے بھاٹی، شیرانوالہ اور کشمیری دروازہ ایک جیسے ہیں۔ البتہ سطحی نقشے کے اعتبار سے تینوں دروازے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔
بھاٹی دروازہ اپنی ظاہری سطح پر یوں تو گوتھک اندازِ تعمیر کی دوہری کمان پر مشتمل ہے مگر دروازے کے بائیں اور دائیں جانب دو لمبی بیرکیں ہیں جن کے سامنے برآمدے بنے ہوئے ہیں۔ ان بیرکوں کی بیرونی دیواریں شہر کی فصیل کی جگہ لیے ہوئے ہیں۔ دائیں اور بائیں دونوں جانب دو دروازے ڈیوڑھی میں کھلتے ہیں۔ لمبائی کے اعتبار سے بھاٹی دروازہ دیگر دروازوں کی عمارات سے طویل ترین ہے اس کی لمبائی 187فٹ تک پہنچتی ہے۔
دروازے کی بڑی ڈاٹ کو دو ستون سہارا دئیے ہوئے ہیں ہر ستون پر اوپر نیچے مستطیل چوکھٹے بنے ہوئے ہیں۔ ڈیوڑھی کی چھت بھی گوتھک انداز کی ڈاٹ سے بنی ہے۔ ڈیوڑھی کا حصہ دائیں اور بائیں ملحقہ بیرک کی عمارت سے خاصا بلند ہے۔ ڈاٹ کے دونوں اطراف بیرونی جانب مرغولے بنے ہوئے ہیں جو اس کی خوبصورتی میں اضافہ کا سبب بنتے ہیں۔
انگریزی عہد میں بھاٹی دروازے کی تعمیر نو کے وقت نہ تو عسکری ضرورت کو اس طرح ترجیح دی گئی جیسے سکھوں یا مغلوں کے زمانے میں تھی اور نہ ہی اصل دروازوں کی جمالیات کے تناسب و شکل کو بحال رکھنے کی کوشش کی گئی۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ دہلی دروازے کے برعکس ان دروازوں کا انداز داخلی دروازے جیسا ہی نظر آتا ہے۔ گوتھک انداز تعمیر کی ڈاٹ کے علاوہ دیگر عناصر مغلوں کے فن تعمیر سے سرسری ربط بناتے ہیں۔
بیرک اور برآمدہ یک منزلہ ہیں جبکہ اصل دروازے میں بالائی منزل پر داروغوں کی رہائش کے لیے کمرے تعمیر تھے۔ عمارات کے لیے اینٹیں اور چونے کا مسالہ استعمال کیا گیا۔ آج کل ان بیرکوں میں بھاٹی پولیس کے ملازم آباد ہیں۔
بھاٹی دروازے کے سیدھے ہاتھ تانگوں کا اڈہ اور خالی میدان تھا جہاں سرکس کمپنیاں سرکس لگاتی تھیں جبکہ الٹے ہاتھ پر مسجد و مزار غلام رسول ہے۔ یہ بزرگ ’’بلیوں والی سرکار‘‘ کے نام سے مشہور ہیں۔ دروازے کے بالکل پاس الٹے ہاتھ پر ایک بڑا درخت ہے جس کی شاخوں نے جھک کر دروازے کا منظر چھپایا ہوا ہے۔
بھاٹی گیٹ کی بیرونی جانب سرکلر روڈ سے پرے حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کا مزار ہے اور اس کے قریب ہی کربلا گامے شاہ ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے شہر قدیم سے داتا گنج بخش علی ہجویری کے مزار تک آنے کے لیے یہ دروازہ بنایا گیا تھا۔ غزنوی عہد کا شہر قدیم یہاں اختتام پذیر ہوتا تھا اور اکبر کے عہد میں جب شہر قدیم کو نو گزروں میں تقسیم کیا گیا تو تلواڑہ گزر اور مبارا خان گزر بھاٹی دروازے کے پاس باہم ملتی تھیں۔
یہ دروازہ پرانے لاہور کے مغرب اور شہر قدیم کی فصیل میں جنوب کی سمت واقع ہے، یہاں سے شاہی مسجد کو سیدھا راستہ جاتا ہے، فصیل میں بھاٹی دروازے کی دائیں جانب موری جبکہ بائیں جانب ٹکسالی دروازہ ہے۔ اس کے سامنے لوئر مال ہے جو آگے جا کر ملتان روڈ بن جاتی ہے۔
بھاٹی دروازہ پہلوانوں کی وجہ سے بھی معروف ہے جنھوں نے یہاں سے نکل کر برصغیر میں کافی دھوم مچائی۔
بھاٹی دروازے کے اندر بازار حکیماں ہے جہاں بڑے نامور حکما رہا کرتے تھے۔اسی بازار حکیماں سے اردو یا فارسی کا ایک مشہور محاورہ منسوب ہے۔
زمیں جنبد، نہ جنبد گل محمد
یعنی زمین اپنی جگہ سے ہل سکتی ہے مگر گل محمد اپنی جگہ سے نہیں ہلے گا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور میں حکیم گل محمد،بھاٹی گیٹ میں مقیم تھے۔ کہتے ہیں کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی پشت پر پھوڑا نکل آیا، کئی طبیبوں نے علاج کیا مگر پھوڑا ٹھیک نہ ہوا۔ کسی نے رنجیت سنگھ کو حکیم گل محمد کے بارے میں بتایا کہ وہ نامور حکیم ہیں اور ان کے ہاتھ میں شفا ہے۔ رنجیت سنگھ نے حکیم صاحب کو پیغام بھجوایا کہ میرے پھوڑے کا علاج کیا جائے۔ حکیم گل محمد نے پیغامبر کو کہا کہ رنجیت سنگھ کو علاج کےلیے میرے مطب پر آنا ہو گا۔
رنجیت سنگھ نے دوبارہ چند درباریوں کو تحریر کے ساتھ بھجوایا کہ میں تنگ بازار میں نہیں آ سکوں گا، میرا علاج میرے پاس آ کر کیا جائے۔ تندرست ہونے پر آپ کو منہ مانگا انعام دیا جائے گا۔ حکیم گل محمد نے رنجیت سنگھ کی تحریر پڑھ کے اسی کاغذ پر یہ جملہ لکھ دیا ”زمین جنبد، نہ جنبد گل محمد“ کہا جاتا ہے کہ یہ جملہ پڑھ کے رنجیت سنگھ ہاتھی پر بیٹھ کر خود حکیم گل محمد کے پاس آیا تھا۔ حکیم گل محمد نے رنجیت سنگھ کا علاج کیا اور اس کا پھوڑا ٹھیک ہو گیا۔ رنجیت سنگھ جب تک زندہ رہا، روزانہ پانچ روپے اور پانچ من حلوا پکوا کے حکیم گل محمد کے مطب بھیجتا تھا جو غریبوں میں تقسیم کردیا جاتا تھا۔
علمی و ادبی اور تاریخی حوالے سے اندرون بھاٹی گیٹ کا علاقہ ہمیشہ ہی مرکز و منبع رہا ہے۔ مشہور تاریخی اور لاہور کی ابتدائی مسجد ’’اونچی مسجد‘‘ بھاٹی دروازے کے اندر واقع ہے۔ سکھوں کے عہد کے آخری دو عشروں میں یہاں بہت سی حویلیاں تعمیر کی گئیں، جن میں سے زیادہ تر آج موجود نہیں ہیں۔ بھاٹی بازار، بازار حکیماں اور ٹبی بازار سے ہوتا ہوا شاہی محلہ تک چلا جاتا ہے جہاں ٹکسالی دروازے سے سڑک آ کر مل جاتی ہے۔

Follow us on:
Facebook:
  / ​.  .
Twitter:
  / gilanilogs  
Instagram:
  / zulfiqargil.  .

show more

Share/Embed